تیرے آثار مٹانے میں بہت دیر لگی

تیرے آثار مٹانے میں بہت دیر لگی
خود کو اس پار بلانے میں بہت دیر لگی


تو مری ذات کا کھویا ہوا حصہ ہے کوئی
تجھ کو یہ بات بتانے میں بہت دیر لگی


زندگی جس کی ہر اک تال پہ کرتی ہے دھمال
دل کے وہ تار بجانے میں بہت دیر لگی


آئینہ مجھ کو یوں دیکھے کہ سمٹتی جاؤں
تیرے رنگوں کو بہانے میں بہت دیر لگی


جس کی تعبیر میں بے شکل نکھر جاتے ہیں
مجھ کو اس خواب کے پانے میں بہت دیر لگی


رات پھر ہجر کے تکیے پہ کئے گیسو دراز
رات پھر خود کو سلانے میں بہت دیر لگی


کتنے بکھرے ہوئے رنگوں میں ملی ہے فرقت
مجھ کو یہ رزق اٹھانے میں بہت دیر لگی


وصل کے خواب مری نسل ہی اب دیکھے گی
ہجر میں راستہ پانے میں بہت دیر لگی