تیغ ستم کبھی ہے تو سنگ جفا کبھی

تیغ ستم کبھی ہے تو سنگ جفا کبھی
یعنی نصیب عشق وہی ہے جو تھا کبھی


سایا نہ تھا کہ ساتھ مرا چھوڑتا کبھی
اب بھی وہ ساتھ ہے جو مرے ساتھ تھا کبھی


اکثر تو خشک ہی مری آنکھیں رہیں مگر
یوں بھی ہوا دئے سے دیا جل اٹھا کبھی


کچھ کچھ تو ابتدائے اسیری میں تھا کرم
پھر حال پوچھنے بھی نہ آئی صبا کبھی


ہر پھول کی مہک ہے چمن میں جنوں اثر
شاید اسی جگہ کوئی صحرا بھی تھا کبھی


وہ لوگ بھی ہیں سنگ بکف جن سے آج تک
پوچھا نہ ہم نے تیری گلی کا پتہ کبھی