تصورات کے خاکوں میں تیرا انگ بھرے

تصورات کے خاکوں میں تیرا انگ بھرے
کبھی مصور‌ ہستی کچھ ایسا رنگ بھرے


چمک اٹھے مرے خواب و خیال کی دنیا
یوں میری ذات میں جلووں کے جل ترنگ بھرے


خیال سود و زیاں پھر نہ ہو محبت میں
تری نگاہ کبھی دل میں وہ امنگ بھرے


ٹھہر نہ جائے کہیں آج پھر سے نبض حیات
پلا وہ جام کہ جو خواہشوں میں جنگ بھرے


سرور دے وہ کہ ہو وجد میں جنوں رقصاں
تو ساز چھیڑ کبھی ایسے بھی ترنگ بھرے


پلٹ کے وار بھی کرتے کمین گاہ پہ کیا
ہمیں تو تیر ہی بخشے گئے ہیں زنگ بھرے


بہ طرز نو لیا جائے پھر امتحان دل
گلاب شاخ پہ کھلنے لگیں جو سنگ بھرے


حیات نو ہی کرے جنبشیں عطا ان کو
نظر سے جام پلائے گئے جو بھنگ بھرے


بھٹک نہ جائیں اگر ہم تو کیا کریں خاورؔ
جمال یار کے رستے ہیں جب سرنگ بھرے