تصور کو صورت میں لایہ گیا ہے
تصور کو صورت میں لایہ گیا ہے
جو پردہ تھا حائل اٹھایا گیا ہے
فریب نظر کی ہیں رنگینیاں سب
جو کثرت کو وحدت میں پایہ گیا ہے
درون مکاں اک مکیں کا نہ ملنا
یہی راز تھا جو چھپایا گیا ہے
دھواں دل سے اٹھے تو یہ جان لینا
چراغ سحر تھا بجھایا گیا ہے
اک آواز ہے رہزن ہوش و تمکیں
کوئی راگ اس دھن پہ گایا گیا ہے
یہ کاکل بھی سرگوشیاں کر رہا ہے
اسے کس لئے سر چڑھایا گیا ہے
غزل کہنے کی تاب کس میں تھی سرورؔ
جو تھا دل میں وو لب پہ لایا گیا ہے