چشم بینا اور احساس حقیقت چاہئے

چشم بینا اور احساس حقیقت چاہئے
کثرت فطرت میں وحدت کی عقیدت چاہئے


ضبط احساسات کی عینی شہادت چاہئے
ہر عمل میں ترک لذت کی رعایت چاہئے


کثرت فطرت میں رہ کر حسن وحدت چاہئے
ہر عبادت میں عبودیت کی نیت چاہئے


جلوہ ہائے نور کو آغوش خلوت چاہئے
اور خلوت میں مکین دل کی جلوت چاہئے


ہر نفس آمادۂ آزار ہے چرخ کہن
پھر بھی انساں کو کبھی آرام و راحت چاہئے


بے ثباتی میں بھی طمع زیست دامن گیر ہے
ہر قدم پر کچھ نہ کچھ ایجاد و جدت چاہئے


کوشش مشکور ہیں اپنی جنوں افزائیاں
مکتب وحشت میں دستار فضیلت چاہئے


ہے کٹھن قید بدن میں دید انوار خفی
انہماک دل کو ظاہر کوئی صورت چاہئے


ہم کو اس بے مائیگی پر ہی تو سرورؔ ناز ہے
بس فقط اہل نظر کی کچھ عنایت چاہئے