سنا جب تیرے دیوانے نے گلشن میں بہار آئی

سنا جب تیرے دیوانے نے گلشن میں بہار آئی
قبا صحرا سے خود دامن میں لے کر نوک خار آئی


نظر ہر رنگ میں جن کو شبیہ حسن یار آئی
انہیں کیا غم خزاں آئی چمن میں یا بہار آئی


کبھی سانسوں کے تاروں میں کبھی آنکھوں کے پردوں میں
صدائے شوق کس کس ساز میں تجھ کو پکار آئی


پڑی برق نظر صیاد کی جب آشیانے پر
میں یہ سمجھا کہ شاید میرے گلشن پر بہار آئی


تصور میں ہو تم اور آرزوئے دید باقی ہے
نگاہوں میں خزاں چھائی ہے جب دل میں بہار آئی


پتا دیتی ہے خود صیاد یہ دل کی خلش ورنہ
مجھے یہ بھی نہیں ہے یاد کب فصل بہار آئی


نہ پوچھو انتہائے شوق کی رعنائیاں سرورؔ
مرے ہر اشک کے ہم راہ اک تصویر یار آئی