حجازی رنگ میں جو رنگ عرفاں دیکھ لیتے ہیں

حجازی رنگ میں جو رنگ عرفاں دیکھ لیتے ہیں
وہ اپنے کفر میں بھی نور ایماں دیکھ لیتے ہیں


کبھی رہتا تھا غم پائے طلب منزل کے دامن میں
مگر اب پاؤں کو منزل بہ داماں دیکھ لیتے ہیں


چھپے جا تو نظر سے لاکھ دل سے چھپ نہیں سکتا
تری تنویر نزدیک رگ جاں دیکھ لیتے ہیں


بس اتنی رہ گئی ہے اب قفس میں سرخیٔ گلشن
بہاریں یاد آتی ہیں تو داماں دیکھ لیتے ہیں


جنون شوق زندہ باد تو نے وہ نگاہیں دیں
کہ گھر بیٹھے ہوئے تیرا بیاباں دیکھ لیتے ہیں


نیاز عشق سے یوں بے نیاز عشق بن بیٹھے
کہ اپنی شکل میں اب روئے جاناں دیکھ لیتے ہیں


وہ جذب شوق اب صیاد ہے تیری عنایت سے
قفس میں قید رکھ کر بھی گلستاں دیکھ لیتے ہیں


یہ کس نے کھول دی ہے آنکھ دل کی اس طرح سرورؔ
جہاں پلکیں جھکیں ہم حسن جاناں دیکھ لیتے ہیں