تنہا ہر ایک رہ سے گزر جانا چاہیے
تنہا ہر ایک رہ سے گزر جانا چاہیے
جیسے جیے ہیں ویسے ہی مر جانا چاہیے
جانے یہ دل کا درد کہاں تک ستائے گا
دریا چڑھے تو اس کو اتر جانا چاہیے
بجھ کر وجود شعلہ سلگتا ہے کس لیے
میں راکھ ہوں تو مجھ کو بکھر جانا چاہیے
آوارگی میں کب سے گزرتی ہے رات بھی
آخر کبھی تو شام کو گھر جانا چاہیے
اے دوستو کھڑے ہو مرے گرد کس لیے
کوئی بتاؤ مجھ کو کدھر جانا چاہیے
ہر جلوۂ جمال سے تنگ آ چکا ہے جی
اک روز زندگی سے بھی بھر جانا چاہیے
جمشیدؔ سن رہے ہو سفر کی پکار کیا
طوفاں کو یوں نہ رہ میں ٹھہر جانا چاہیے