دل سلگتا ہے نہ اب یاد کوئی آتی ہے
دل سلگتا ہے نہ اب یاد کوئی آتی ہے
گرد سی ہے جو خیالوں پہ جمی جاتی ہے
دور پیڑوں سے الجھتی ہے ہر آندھی لیکن
زرد پتوں کو مرے گھر میں اٹھا لاتی ہے
کرنے آتی ہے منور دل ہر گوشۂ درد
چاندنی شہر کی گلیوں میں بھٹک جاتی ہے
دل کا برباد جہاں جب بھی کبھی دیکھتا ہوں
اپنے ناکام ارادوں پہ ہنسی آتی ہے
وہ ہے کس دیس میں کس شہر میں ہوں میں جمشیدؔ
بس اسی سوچ میں ہر رات گزر جاتی ہے