یہ چارہ گر تو یہاں ہر گلی میں ملتے ہیں

یہ چارہ گر تو یہاں ہر گلی میں ملتے ہیں
کوئی بتاؤ کہاں دل کے چاک سلتے ہیں


ترے بدن کی صبا کس چمن میں چلتی ہے
کہاں پہ اب ترے ہونٹوں کے پھول کھلتے ہیں


فضا میں بکھری ہیں زرد آنسوؤں کی تحریریں
وداع گل میں درختوں کے ہاتھ ملتے ہیں


وہ جن کے اشک بچھڑتے ہوئے نہیں تھمتے
ملیں بچھڑ کے تو کیوں بے رخی سے ملتے ہیں


غلط گمان نہ کر میری خشک آنکھوں پر
سمندروں میں جزیرے ضرور ملتے ہیں


سلگ اٹھی ہے تری یاد میں فضائے خیال
کہ جیسے تیرگیٔ شب میں پھول کھلتے ہیں