یہ کس مقام تمنا سے دل گزرنے لگا
یہ کس مقام تمنا سے دل گزرنے لگا
ہوا ہے جسم میں اک زہر سا اترنے لگا
الجھ رہا ہے تری بوئے پیرہن سے بدن
کہ پھول حلقۂ بازو کا کام کرنے لگا
ہوائے درد نے مہلت نہ دی سنبھلنے کی
نقوش یاد سمیٹے تو میں بکھرنے لگا
وہ تھا ستارۂ رنگیں کہ ماہتاب کی قاش
ہوئی جو شب تو ترے لب پہ رنگ ابھرنے لگا
ہوا کچھ اس طرح انصاف بھی روا جمشیدؔ
کہ منصفوں سے دل بے گناہ ڈرنے لگا