تجدید عہد کر کسی سیمیں بدن کے ساتھ

تجدید عہد کر کسی سیمیں بدن کے ساتھ
یعنی لٹا شباب شراب کہن کے ساتھ


وابستۂ بہار ہو خود مثل رنگ و بو
یوں زندگی گزار کسی گل بدن کے ساتھ


ہاں اے مغنیہ کوئی مدھم سا راگ چھیڑ
یعنی ملا رباب دل پر محن کے ساتھ


ساقی پلا شراب زکوٰۃ شباب دے
ہاں پھر کوئی مذاق دل پر محن کے ساتھ


دل چاہتا ہے پھر کوئی بہکا ہوا سا تیر
پھر کھینچ لے کمان اسی بانکپن کے ساتھ


زاہد یہ تلخ گفتگو یہ سن ہزار حیف
ظالم گزار دی کسی شیریں دہن کے ساتھ


طرفہ ستم ہیں چرخ کی یہ آزمائشیں
وہ بھی شریک غم ہیں دل پر محن کے ساتھ


محروم التفات نہیں چھیڑ ہے مراد
دل کو بھی لاگ ہے نگہ‌ پر فتن کے ساتھ


طالبؔ مجھی سے پوچھنا طالبؔ تو کون ہے
ہنس دینا پھر کسی کا عجب بھولے پن کے ساتھ