تجسس
کائنات زیست پر افسردگی سی چھا گئی
فرط غم سے دل مرا ویرانیوں میں کھو گیا
اور میری بے بسی افسون دل کو پا گئی
دیکھتے ہی دیکھتے کیا جانے یہ کیا ہو گیا
اپنی حیرانی میں کوئی راہ جیسے کھو گیا
جادۂ منزل سے کوسوں دور بے بزم خیال
بیٹھے بیٹھے میں جہاں میں اک فسانہ ہو گیا
کر دیا ہے اس ہجوم کشمکش نے پائمال
ڈھونڈھتا ہوں اپنے کاشانے میں وہ روح جمال
جس کے پرتو کا ہے مظہر یہ جہان بے ثبات
کیا مرے دل میں بھی ہے کہتے ہیں جس کو لا یزال
یا فقط مجذوب کے وہم و گماں کی کائنات
درد رس کوئی نہیں کوئی نہیں ہے غم گسار
اپنے بے معنی تجسس سے میں خود ہوں شرمسار