تا حد نظر چاندنی اس طرح کھلی ہے

تا حد نظر چاندنی اس طرح کھلی ہے
جیسے ترے ہونٹوں کی ہنسی پھیل گئی ہے


اتنی ہی نگاہوں کی مری پیاس بڑھی ہے
جتنی کہ تجھے دیکھ کے تسکین ہوئی ہے


کہنے کو تو خوابوں میں مری عمر کٹی ہے
لیکن مرے خوابوں کی بہت عمر بڑی ہے


زلفوں پہ رکوں یا ترے رخسار پہ ٹھہروں
جس جا سے گزر کیجئے اک دھوم مچی ہے


اک عمر تو گزری ہے تجھے دیکھتے لیکن
جب دیکھیے تب بات کوئی تجھ میں نئی ہے


لوٹ آیا ہوں جا جا کے ترے در سے کئی بار
جب تیری محبت میں مری جاں پہ بنی ہے


وہ علم ہو یا فن ہو کوئی چیز ہو یارو
شامل نہ ہو گر حسن تو ہر شے میں کمی ہے


پاکیزگیٔ دل کے سوا کچھ نہیں فردوس
دوزخ ہے وہ دل جس میں محبت کی کمی ہے


جس در کے سوا ہیچ تھی تخلیق دو عالم
اس در سے شہابؔ آس بھی اب ٹوٹ گئی ہے