ہے قصہ مختصر میرے سفر کا
ہے قصہ مختصر میرے سفر کا
نہ پانی ہے نہ سایہ ہے شجر کا
نہیں ہے جس پہ تیرا نقش پا تک
بھروسہ کیا ہے ایسی زندگی کا
چلا ہوں جانب منزل میں لیکن
نہیں نام و نشاں تک رہ گزر کا
خیال یار میں گم ہو گیا ہوں
پتہ میں کس سے پوچھوں اپنے گھر کا
نہیں صہبا کی عظمت سے میں منکر
یہ نشہ ہے مگر ہے رات بھر کا
زمانے بھر میں رسوا ہو گیا ہوں
کرشمہ ہے یہ بس تیری نظر کا
پریمیؔ جب بھی جلوہ گر وہ ہوگا
بدل جائے گا منظر بام و در کا