سورج تو دے دیا تھا ستارہ بھی دے دیا

سورج تو دے دیا تھا ستارہ بھی دے دیا
پھر ہم نے اس کو خاک کا خرقہ بھی دے دیا


اصلاً تو شہر عشق کے معمار تھے مگر
رب نے دیار درد کا ٹھیکا بھی دے دیا


دامن پکڑ کے پیچھے یہ قلاش تھی پڑی
دنیا کو ہم نے بھیک کا کاسہ بھی دے دیا


پگڑی دکان سنگ تراشی کی لی مگر
روکن میں کار خانۂ‌ شیشہ بھی دے دیا


تھا حشر کو زمانۂ ما قبل ہستی کم
سو ہم نے اپنی عمر کا عرصہ بھی دے دیا


پہلے اکھاڑی خطۂ دشت جنوں کی باڑ
پھر سر زمین خاک کا قبضہ بھی دے دیا


اس کی نظر تھی ہاتھ پہ سو ہم نے اس لئے
اوزار دے دئے سبھی پیشہ بھی دے دیا


اپنی طرف سے میں نے شفقؔ خواب دے دئے
پھر اس کے بعد آنکھ کا سرمہ بھی دے دیا