سورج گیا تو چاند ستارے نکل پڑے

سورج گیا تو چاند ستارے نکل پڑے
جن کی تلاش تھی وہ نظارے نکل پڑے


اے کاروان قوم تری خیر ہو کہ ہم
لگتا ہے رہزنوں کے سہارے نکل پڑے


طوفان جوش پر تھا سفینہ بھنور میں تھا
غرقاب ہم ہوئے تو کنارے نکل پڑے


تھا جس کا خوف ہو کے رہا حادثہ وہی
نیزے کسی کے سینے ہمارے نکل پڑے


پہلے تو میرے حق میں زباں اس کی آگ تھی
جب آگ تھم گئی تو شرارے نکل پڑے


جب سے بڑھا ہے بھاؤ سیاست میں زہر کا
لے کر سپیرے ناگ پٹارے نکل پڑے


تھا گھر کا سائبان ہرا پیڑ جب گرا
تقسیم ساز ہاتھوں سے آرے نکل پڑے


کیسی خطا ہوئی کہ سر میکدہ تھے ہم
سب کہہ اٹھے قمرؔ بھی ہمارے نکل پڑے