میں تیرا منتظر ہوں جلوۂ جانانہ برسوں سے
میں تیرا منتظر ہوں جلوۂ جانانہ برسوں سے
چھلک اٹھا ہے میرے صبر کا پیمانہ برسوں سے
وفا کی پاسداری ہے نہ جل جانے کا جذبہ ہے
بدل ڈالی ہے کس نے فطرت پروانہ برسوں سے
نہ لا گردش میں اس کے سامنے پیمانہ اے ساقی
نہ جانے کون سے زنداں میں تھا دیوانہ برسوں سے
انہیں اصرار ہے میں ان کو گھر آنے کی دعوت دوں
کہوں کیسے انہیں گھر ہے مرا ویرانہ برسوں سے
قیامت ہے اسی پر بے وفا ہونے کی تہمت ہے
جو دیتا آ رہا ہے جان کا نذرانہ برسوں سے
نہ جانے کتنی برساتوں میں ڈھونڈا ہے قمرؔ ہم نے
نظر آتے ہیں وہ مے کش نہ وہ مے خانہ برسوں سے