جلوۂ یار مری راہ گزر تک پہنچے

جلوۂ یار مری راہ گزر تک پہنچے
ذوق‌ دیدار اگر تاب نظر تک پہنچے


اس کی یہ ضد مرے قدموں کو نہیں تھی منظور
اس نے چاہا تو بہت تھا مرے سر تک پہنچے


آ گئی شرم دواؤں کو اثر کر نہ سکیں
جب اٹھے ہاتھ دعاؤں کے اثر تک پہنچے


فتنہ گر نام اسی کا ہے عمل رد عمل
تیرے فتنے تھے پلٹ کر ترے در تک پہنچے


تو بھی پہچان نہ پائے گا خد و خال ترے
تیرے بہروپ اگر میری نظر تک پہنچے


میرے اپنے ہی مری پیٹھ کے خنجر نکلے
غیر تو مجھ کو بچانے مرے گھر تک پہنچے


ایک صرف آپ ہیں ملتے نہیں اس سے ورنہ
لوگ یہ فخر سے کہتے ہیں قمرؔ تک پہنچے