ہوتا نہیں یقین مجھے چھوڑ جائے گا
ہوتا نہیں یقین مجھے چھوڑ جائے گا
وہ میرا پیار میری وفا آزمائے گا
اے سنگ سرخ توڑ نہ نفرت کی ضرب سے
نازک ہے میرا شیشۂ دل ٹوٹ جائے گا
زر بھی زمیں بھی نور محمد بھی ہے ترا
اک ساتھ چل کے دیکھ زمانے پہ چھائے گا
بھونروں کو اتنی دعوت حرص و ہوس نہ دے
تجھ سے ترا گلاب بدن چھوٹ جائے گا
یہ دور وہ نہیں ہے کہ مخلص رہیں گے دوست
اک دن کوئی اٹھے گا تجھے کاٹ کھائے گا
مجرم کے ظلم و جور سے ہرگز نہ ہو اداس
تجھ کو سزا سے منصف اعلیٰ بچائے گا
تو نے بھی اپنی قوم کو بخشی نہیں ضیا
الزام اے قمرؔ یہ ترے سر پہ آئے گا