سرخ سورج شام کا سنگھار ہے
سرخ سورج شام کا سنگھار ہے
بوڑھی آنکھوں پر دھندلکا بار ہے
ایک مینڈک تجربے کی میز پر
مشتعل کتنا ہی ہو بے کار ہے
ذہن پر چادر دھوئیں کی تن گئی
دھند میں ڈوبا ہوا سنسار ہے
مرتعش لہروں پہ رقصاں چاندنی
میری سانسوں میں عجب جھنکار ہے
وادیوں میں سرخ پھولوں کی بہار
سبز آنکھوں کے لئے کہسار ہے
سنگ و آہن استعارے ہیں فقط
ہر طرف تو ریت کی دیوار ہے
رات کیا خوابوں پہ پھر ٹوٹا عذاب
آج کیوں ہر آدمی اخبار ہے