سہاگ کی مہندی

رقص مینا سرود جام و سبو
بہکی بہکی بہار کی خوشبو
کھیلتی ظلمتوں کے سینے میں
مرمریں رات کے سفینے میں
جانب ساحل حیات رواں
حسرتوں کی جوان انگڑائی
مسکراتی سی کائنات رواں
شوخیاں مائل تبسم سی
اور نبضیں یقین کی گم سی
صبح خنداں بہار رعنائی
آرزؤں کی جھرمٹوں میں ہے
جانب ساحل حیات رواں
تیری یادوں کے آبگینے میں
ہے مری تلخ کامیوں کا لہو
لگ رہی ہے سہاگ کی مہندی
یہ سماں اور آنکھ میں آنسو
میری مجبوریوں پہ غور تو کر
وقت رخصت ملال لا حاصل
اب یہ دوست سوال لاحاصل


تو مری زندگی کی بھیک نہ مانگ
ہے مری تلخ کامیوں کا لہو
تیری یادوں کے آبگینے میں
دو دلوں کا ملاپ ہوتا ہے
کھیلتی ظلمتوں کے سینے میں
زندگی موت کے سفینے میں
کیف و مستی کے جھرمٹوں میں ہے
جانب ساحل حیات رواں