انتخابِ سخن: اردو شاعری سے انتخاب
الف یار پر ایک نیا سلسلہ : اتنخابِ سخن"۔۔۔اس سلسلے کے تحت ہر ہفتے ایسے شعرا کا کلام پیش کیا جائے گا جو اردو شاعری میں نیا نام ہیں۔ آآج سعید عباس سعید کی ایک غزل اور ایک نظم پیش خدمت ہے۔
الف یار پر ایک نیا سلسلہ : اتنخابِ سخن"۔۔۔اس سلسلے کے تحت ہر ہفتے ایسے شعرا کا کلام پیش کیا جائے گا جو اردو شاعری میں نیا نام ہیں۔ آآج سعید عباس سعید کی ایک غزل اور ایک نظم پیش خدمت ہے۔
انہیں مشاعروں کی جان سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ان کا ترنم اور خوبصورت لحن تھا اور دوسری وجہ ان کے کلام کے غنائیت اور سریلاپن۔۔۔ ان کے شعروں میں ایسی برجستگی اور روانی ہوتی تھی کہ سامعین کو سنتے سنتے ہی ازبر ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کے اشعار نہ صرف زبان زد عام ہیں بلکہ کئی اشعار تو غالب کی طرح ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
محبوب مجازی ہو تو زندگی لمحہ لمحہ کر ب میں گزرتی ہے اور اگر محبوب حقیقی ہو تو گلہائے عقیدت نچھاور کیے جاتے ہیں۔محبوب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے نثر اور شاعری میں اہل ادب ادیبوں اور شاعروں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق لفظوں کے پھول نچھاور کیے ہیں۔اپنے جذبات و احساسات کو مختصر انداز میں پیش کرنا جس سے مکمل مفہوم بھی کھل کر عیاں ہو جائے شاعری کے علاوہ کسی دوسری صنف میں ممکن نہیں ہے۔
شور۔۔۔ ہنگامہ۔۔۔افراتفری ۔۔۔ بھاگم بھاگ۔۔۔ایک بے ربط، بے ضبط اور بے ہنگم طوفان سا برپا ہے ہر جگہ۔ چوک چوراہوں اورگلیوں بازاروں میں ایک ہجوم ہے۔۔۔ اک بھیڑ ہے جو یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں بھاگتی دوڑتی نظر آتی ہے ۔ گویا:خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قدیم ہندوستان میں وقت ناپنے کا پیمانہ پہر ہوا کرتے تھے۔ دن رات کے آٹھ پہر تھے، اور ہر پہر تین گھنٹے کا ہوا کرتا تھا۔ ہر پہر کے دوران پہرے دار چوکسی پر رہتے تھے اور ہر گھنٹہ پورا ہونے پر دھات کے بنے گھنٹے پر چوٹ دے کر اعلان کرتے تھے کہ وہ پہرے پر ہیں اور دوسرے یہ بھی پتہ چلتا تھا کہ وقت کیا ہوا ہے۔ پہر سنسکرت لفظ "پرہر" سے بنا ہے۔ اب پہرے دار کا مطلب صرف سنتری، محافظ یا چوکی دار رہ گیا ہے۔
اردو شاعری میں آئے روز نت نئے تجربات ہو رہے ہیں، اور یہ معاملہ صرف اردو شاعری تک محدود نہیں ، ہر زبان کی شاعری میں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن ان تجربات میں صرف وہی مقبول ہونے چاہئیں جو لچر پن ، بازاری الفاظ اور عامیانہ انداز سے پاک ہوں ۔ اسی طرح شاعری کو کوئی عجیب و غریب ملغوبہ بنا کر رکھ دینا بھی زبان و ادب سے کوئی خیر خواہی نہیں۔ لہٰذا یہ غظم ، نثری شاعری وغیرہم کو شاعری تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا ظفر علی خان قادر الکلام شاعر اور عظیم صحافی تھے ۔ شاعری میں اس درجہ مشاق اور با صلاحیت تھے کہ کھڑے کھڑے اشعار کے اشعار کہتے چلے جاتے تھے ، اور فی البدیہ شاعری میں خاص ملکہ رکھتے تھے۔
آپ نے اپنی شاعری میں کہا تھا کہ: مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے ؛ لفظ میرے، مِرے ہونے کی گواہی دیں گے