افسانہ

مالکن

۱۹۵۰ء میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے سیتاپور سے لے کر لکھیم پور کھیری تک کے سارے ’’گانجر‘‘ کے علاقے کو تہس نہس کرکے رکھ دیاتھا۔ لیکن گھاگھرا نے تو کمال ہی کردیا۔ صدیوں کا بنابنایا راستہ چھوڑ کر سات میل پیدل چل کر آئی اور سڑک کوٹنے والے انجن کی طرح چھوٹے موٹے دیہاتوں کو زمین کے ...

مزید پڑھیے

نیا قانون

لکھنو کے سر پر اختر نگر کا تاج رکھا تھا جس کے ہیرے کمہلانے اور موتی سنولانے لگے تھے۔ آہستہ خرام گومتی امام باڑہ آصفی کے چرن چھوکر آگے بڑھی تو ریزیڈنسی کے سامنے جیسے ٹھٹک کر کھڑی ہوگئی۔ موجوں نے بے قراری سےسر اٹھااٹھاکر دیکھا لیکن پہچاننے سے عاجز رہیں کہ ریزیڈنسی نواب ریزیڈنٹ ...

مزید پڑھیے

گرم لہو میں غلطاں

ان کے طباق ایسے چوڑے چکلے زرد چہرے پر چھوٹی بڑی شکنوں کا گھنا ڈھیلا جلال پڑا ہوا تھا جیسے کوری مارکین کا ٹکڑا نچوڑ کر سکھادیا گیا ہو۔ دھندلی دھندلی آنکھوں سے میلا میلا پانی رس رہا تھا جسے ان کے سیاہ گندے ناخونوں والی موٹی موٹی انگلیاں کاندھے پر جھولتے میلے چکٹ آنچل سے بار بار ...

مزید پڑھیے

لالہ امام بخش

رمواپور کے لالہ دیبی بخش جب مچھر ہٹہ پہنچے تو دیکھا کہ ان کا ’’موکل‘‘ ملو بھر جی لائی کا تعزیہ بنارہا تھا۔ ہندو بھرجی کو مسلمانوں کے کرم کرتے دیکھا تو جل کر رہ گیے۔ چنے کی طرح چٹختی آواز میں مقدمے کی پیروی کو بقایا کاتقاضہ کردیا۔ ملوبے چارہ للو چپو کرنے لگا۔ اور بتلاتے بتلاتے ...

مزید پڑھیے

ٹھاکر دوارہ

بڑے باغ کے دھورے پر ڈھول تو سانجھ سے بج رہے تھے لیکن اب ان کی گدے کھائی آواز میں لیزم کی تولی گوٹ بھی ٹانکی جانے لگی۔ پتمبر پاسی نے چلم منہ سے نکال کر کان کھڑے کیے اور کہزلی۔ اب گدے کھائی آواز پر لگی تو گوٹ کے اوپر مدراپاسی کی چہچہاتی آواز کے گول گول ٹھپے بھی پڑنے لگے تھے۔ پتمبر نے ...

مزید پڑھیے

رضو باجی

سیتاپور میں تحصیل سدھولی اپنی جھیلوں اور شکاریوں کے لئے مشہور تھی۔ اب جھیلوں میں دھان بویا جاتا ہے۔ بندوقیں بیچ کر چکیّاں لگائی گئی ہیں، اور لائسنس پر ملے ہوئے کارتوس ’’بلیک‘‘ کر کے شیروانیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے قصبوں کا زنجیرا پھیلا ہوا تھا، جن میں شیوخ آباد ...

مزید پڑھیے

نومی

وہ عجیب تھی۔ جسم دیکھیے تو ایک لڑکی سی معلوم ہوتی، چہرے پر نظر ڈالیے تو بالکل بچی سی دکھائی دیتی اور اگر آنکھوں میں اترجائیے تو ساری سموچی عورت انگڑائیاں لیتی ملتی۔ وہ سرخ اونچا سا فراک اور سیاہ سلیکس پہنے جگمگارہی تھی اور سیاہ گھنگھرالے بالوں کو جھٹک جھٹک کر ’’جیپ‘‘ میں ...

مزید پڑھیے

ماڈل ٹاؤن

کانٹے دار تاروں کی گھنی باڑھ دیکھ کر راستہ بھول جانے کااحساس ہوا۔ اس نے مڑ کر دیکھا ’’ڈی بلاک‘‘ کی یکساں یک رنگ چہار منزلہ عمارتوں کاجنگل کھڑا تھا۔ دروازوں دریچوں اور بالکنیوں میں کھڑے ہوئے بچے دور سے رنگ برنگ پھولوں کے گچھوں کے مانند نظر آرہے تھے۔ وہ آدھی عمارت کاچکر کاٹ کر ...

مزید پڑھیے

آنکھیں

طاؤس کی غمناک موسیقی چند لمحوں کے بعد رک جاتی ہے۔ ’’سبحان اللہ۔۔۔ جہاں پناہ۔۔۔ سبحان اللہ۔‘‘ ’’بیگم‘‘ (بھاری اور رنجورآواز میں ) ’’جہاں پناہ۔۔۔ اگر ہندوستان کے شہنشاہ نہ ہوتے تو ایک عظیم مصنف، عظیم شاعر، عظیم مصور اور عظیم موسیقار ہوتے۔‘‘ ’’یہ تعریف ہے یا ...

مزید پڑھیے

مجو بھیا

پنڈت آنند سہائے تعلقدار ککراواں کے مرتے ہی شیخ سرور علی نے مختاری کے چونچلوں کو سلام کیا اور کمر کھول دی۔ رئیس پنڈت درگا سہائے نے جھوٹ موٹ کی بھی کی لیکن شیخ جی (وہ ککراواں میں اسی نام سے بجتے تھے) اپنے ٹانگن پر سوار ہوکر مان پور آہی گیے۔ شروع شروع میں شیخ کو مان پور میں ایسا لگا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 78 سے 233