افسانہ

چریاملک

ملک محمد حاکم بیساکھی پر قبضے کی دکانوں کا پھیرا لگا کر شبیر کے ہوٹل پہنچا۔ اس کی مختصر گٹھڑی میں پتی کی پڑیاںنظر آرہے تھے۔ اس نے بینچ پر گٹھڑی پھینکی ، دائیں پیر کے فوجی بوٹ کا تسمہ کھولا اور نڈھال ہو کر گر گیا ۔ٹھنڈے پانی کا گلاس چڑھا کر طبیعت بحال ہوئی تو اسے یاد آی ، سیگریٹ ...

مزید پڑھیے

بوئے خوں

وہ اندھیرے میں دکھائی نہ دینے والی سرخ اینٹوں کے کھردرے فرش پر گھٹنے ٹیک کر اس طرح بیٹھا تھا، جیسے نماز پڑھ رہا ہو۔ گھٹنوں پر رکھے ہوئے بائیں ہاتھ کی انگلیاں کانپ رہی تھیں اور کاندھے میں بھی تیز دُکھن تھی جب کہ اس کا دایاں ہاتھ فرش پر بے حس لٹکا پڑا تھا۔ ایک لمحے کے بعد اس کی اوپر ...

مزید پڑھیے

خواہ مخواہ کی زندگی

اس کے بلاوے پر میں اس دوزخ میں کیوں آگیا۔ گیلی لکڑیوں کے چبھنے والے دھویں سے بھرا یہ چھوٹا سا ہوٹل دوزخ ہی تو تھا۔ کتنی گھٹن تھی اور گرمی بھی۔ نہ کھڑکی نہ روشن دان، بس ایک دروازہ۔ اندر گھسنے کے لیئے آنکھیں جل رہی تھیں۔ لگتا تھا، پلکیں جھڑ جائیں گی۔ سانسوں کا زہر بھی گلے میں اٹک ...

مزید پڑھیے

پرچھائیں

وہ بے خبر تھا اور اپنے بچوں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں کرکٹ میچ دیکھ رہا تھا۔ دوپہر کے بعد اب سہ پہر بھی گزرتی جارہی تھی۔ گرچہ اتوار نہیں تھا۔ پھر بھی اس کی بیوی نے کھانے میں خاص اہتمام کیا تھا۔ سری پائے، بریانی اور کھیر۔ ہر کسی نے پیٹ کی گنجائش سے زیادہ کھا لیا تھا اور اب وہ اپنی جگہ ...

مزید پڑھیے

ہرجائی

مشرب رندانہ، مزاج محرور، طبیعت آزاد، عقائد لامذہبی کی طرف مائل اور پیشہ اخبار نویسی۔ جنگ یورپ شروع ہو چکی تھی۔ میرا اخبار بمبئی سے شائع ہوتا تھا۔ اور اس زمانہ میں بہت مقبول تھا۔ حکومت کی ٹیڑھی نظریں مجھ پر پڑ رہی تھیں۔ میں بھی چھیڑ سے باز نہ آتا ، اور کچھ نہیں تو میدان جنگ کی ...

مزید پڑھیے

دیوتاؤں کا صدقہ

اشخاص:کلاڈیس بالبو:     ایک رومی امیر جو اپنی بیوی کی بدچلنی سےواقف ہے۔لینٹولس:         روما کا ایک نوجوان امیرزادہ جس سےبالبو کی بیگم کے ناجائز تعلقات ہیں۔جولیا:            بالبو کی بدچلن بیوی۔گالیا:            بالبو کا سکریٹری۔لوکسٹا:          بالبو اور جولیا کی کنیز جو زہر دے ...

مزید پڑھیے

ڈپٹی صاحب کا کتا

داروغہ جی محلہ کی سڑک پر خراماں خراما تشریف لے جارہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بید کا ٹکرا ہے، جس کی دم میں چمڑےکے کٹے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لگے ہوئے ہیں۔ وہ اس کواس طرح ہلاتے اور گھماتے چلے جاتے ہیں کہ چمڑے کے ٹکڑوں کا ایک پھول ہوا میں بن جاتا ہے۔ سیاہ فام چہرہ پر گھنی ...

مزید پڑھیے

وہ میرا انتظار کر رہی ہے

زندگی کے پرشور دریا میں، رات کے وقت، کتنے دیے بہے چلے جاتے ہیں۔ حیات انسانی کے کوہساروں میں کتنے جگنو چمکتے ہیں۔ اور پھر ان کو ظلمت شب اپنی چادر میں لپیٹ کر نہ جانے کہاں لے جاتی ہیں؟ آسمان پر کتنی بجلیاں چمکتی ہیں اور پھر کالے بادلوں میں منھ چھپا لیتی ہیں۔ بادل کی گود سےہزار ...

مزید پڑھیے

سراغ رساں

اکتوبر کے مہینے کی ۶ تاریخ تھی اور سال تھا ۱۸۸۵ء۔ ۸۵ نہ ہوگا تو ۸۶ء ہوگا۔ غرض تھے گلابی جاڑے۔ ایک فرد کی سردی تھی، صبح صبح تھانہ میں بھنگی جھاڑو لگا رہا تھا۔ اور داروغہ جی برآمدہ میں اپنے پلنگ پر آدھے لیٹے آدھے بیٹھے، حقہ پی رہے تھے۔ منہ ان کا ابھی باسی تھا۔ رات کے جمع شدہ چیز ...

مزید پڑھیے

سلونی

گلی کے آوارہ کتوں نے میاں صاحب کے دروازے پر بھونک بھونک کر تاروں بھرا آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ میاں صاحب کی بہت ہی لاڈلی کتیا “سلونی” بھی کہاں خاموش تھی، باہر سے ایک بار بھونکنے کی آواز آتی تو وہ دس مرتبہ اسکا جواب دیتی۔ وہ آزادی چاہتی تھی، وہ چاہتی تھی کہ زنجیر کھلے اور وہ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 76 سے 233