سری لنکا: تاریخ کا بدترین معاشی بحران کیسے پیدا ہوا؟

1948 میں  آزادی کے بعد سے آج سری لنکا اپنی تاریخ کا بدترین معاشی بحران دیکھ رہا ہے۔ اس  کی حکومت کے خزانے میں ریزرو ایک ارب ڈالر سے بھی تھوڑے رہ گئے ہیں۔ یہ نہ تو تیل درآمد کرپا رہا ہے اور نہ ہی دیگر اشیاے  ضروریات۔ اس وجہ سے ملک میں بدترین افرا تفری کی صورتحال ہے۔ مہنگائی ہے کہ دوہرے ہندسوں میں اڑان بھرتی عام آدمی کی زندگی محال کرتی جا رہی ہے، بجلی کا تعطل ایسا ہے کہ طبیبوں کو ہسپاتالوں میں ٹارچ جلا کر مریضوں کا علاج کرنا پڑ رہا ہے، وہ بھی ایسے حالات میں کہ بہت سی ادوایات جو درآمد ہوتی تھیں، اب دستیاب نہیں ۔ پٹرول پمپوں اور گیس سٹیشنز کے آگے لمبی لمبی قطاریں ہیں اس آس پر کہ شاید کچھ مل جائے۔ طلبہ کے امتحانات ملتوی ہو چکے ہیں اور ہر طرف سراسیمگی سی کیفیت ہے۔ بنیادی کھانے پینے کی اشیا تیس فیصد تک مارچ میں مہنگی ہوئی ہیں۔ چاول جو سری لنکا کے لوگوں کے کھانے کا بنیادی جزو ہیں، ترانوے فیصد تک مہنگے ہو گئے ہیں۔

ان سب حالات میں سری لنکا کا روپیہ لڑھکتا تین سو روپے فی ڈالر کی سطح سے بھی نیچے جا چکا ہے۔ لوگ سڑکوں پر ہیں اور  حکومت بالخصوص صدر گوٹبایا راجا پکسا سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ سری لنکا کا ایک اور درد سر سات  ارب ڈالر سے زائد وہ قرضہ ہے جو اسے اس سال دینا ہے۔ اس میں ایک بلین کے لگ بگ سورن بانڈز sovereign bonds  کی ادائیگی بھی شامل ہے جو اسے جولائی  میں کرنا ہے۔

حالات تو خاصے دگرگوں ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سری لنکا ایسے حالات کو پہنچا کیسے؟

اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ کئی تو ایسی ہیں جو کہ پاکستان کے تناظر میں بھی آپ کو نظر آئیں گی۔ ہم ان وجوہات پر بات کرتے ہیں  اور قارئین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو بھی ان ہی وجوہات اور حالات کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کریں۔

سری لنکا کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے حکمرانوں کی من چاہی و من مانیغیر موثر پالیسیاں ہیں۔ سری لنکا پر اس وقت ایک ہی خاندان  راجا پکسا کی حکومت ہے۔ چار سگے بھائی تو اہم ترین پوسٹیں سنبھالے بیٹھے ہیں۔ مہندا راجا پکسا جو وزیر اعظم ہیں، گوڈپایا راجا پکسا صدر ہیں،  باسل راجا پکسا وزیر خزانہ ،  چمل راجا پکسا   آب پاشی کے وزیر ہیں۔ اسی طرح کئی اور اہم حکومتی عہدے دیگر راجا پکسا خاندان کے زیر نگیں ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں سے راجا پکسے خاندان کے لوگ سری لنکا کی حکومت میں کسی نہ کسی طرح شامل ہیں۔ اس خاندان کی دو بڑی پالیسیوں کو موجودہ بحران سے منسلک کیا جا رہا ہے۔

ایک تو سری لنکا کے صدر نے پچھلے سال قدرتی طور پر کاشت کاری  کا حکم دیا جس کے تحت ملک میں کیمیائی کھادوں پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ فیصلہ سننے میں تو بہت مسحور کن ہے لیکن اس کی وجہ سے ملک میں خوراک کی کمی ہوگئی۔ دوسرا سری لنکن حکومت نے کئی اشیا پر سے ٹیکس ہٹا دیا۔ جس کی وجہ سے پچیس فیصد تک حکومتی ریونیو میں کمی آئی۔

حکومت کے  دونوں اقدامات بظاہر اچھے ہیں۔ لیکن ایسی معیشت جو بیشتر درآمدات اور خارجی قرضوں پر چل رہی ہو، اسے ایسے پاپولر فیصلوں سے اجتناب کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اسے ہر حال میں اپنے خزانے کو بھرنا ہوتا ہے، تاکہ ملک کا نظام چلتا رہے۔ یہ حالات بالکل ریاست پاکستان کی طرح ہیں جہاں درآمدات برآمدات سے بہت زیادہ ہیں اور اسے ان دونوں کے درمیان فرق کو مٹانے کے لیے اپنے خزانے کو عوام کے ٹیکس اور بیرونی قرضوں سے بھرنا پڑتا ہے۔  یہ بھی کسی قسم کا پاپولر فیصلہ نہیں لے سکتی۔ اس کے لیے بھی ایسا فیصلہ زہر قاتل ہی ثابت ہوگا۔ اسے ہر حال میں خود کو چلانے کے لیے عوام کو معاشی دباؤ میں لانا پڑتا ہے۔ کیونکہ حکومت کمزور ہوتی ہے جو کہ خواص پر دباؤ ڈال نہیں سکتی اس کے پاس واحد حل عوام کو ہی دبانا رہ جاتا ہے۔

سری لنکا کی اس وقت کی معاشی بدحالی  کی دوسری بڑی وجہ کووڈ ہے۔ ملک میں خاصا ریونیو سیاحت کے باعث آتا تھااورکورونا کے آنے کے بعد  سیاحوں کا ملک میں  آنا کم ہوا تو معیشت بیٹھ گئی۔

اس میں بھی پاکستان کے لیے سبق ہے۔ وہ یہ کہ آپ کو ملک کی معیشت کو کسی ایک سورس پر کھڑا کرنا نہیں چاہیے تاکہ کسی بحران کے حالات میں  ملک کی معیشت نہ بیٹھے۔ دیکھا جائے تو ہمارے حالات بھی سری لنکا سے زیادہ مختلف نہیں ہیں، ڈالر کی اونچی اڑان یہاں بھی جاری و سار ی ہے۔ برآمدات کا کل انحصار ٹیکسٹائل پر نظر آیا ہے یا زرعی خام مال پر، درآمدات ہیں کہ نہ رکتی ہیں، نہ کم ہوتی ہیں اور نہ ان کے لیے کوئی پالیسی تیار کی جاتی ہے  کہ کن اشیاء کو درآمد کرنا ہے اور کن کو نہیں۔ ہماری حکومتیں بھی معاشی اصلاحات کی بجائے عوامی مقبولیت کے فیصلے کرتی ہے ، محض اپنے اقتدار کو بچانے اور طول دینے کے لیے، کوئی بڑا معاشی مقصد ان کے پیش نظر نہیں ہوتا۔

سری لنکا کے معاملے میں ماہرین معیشت متفق ہیں کہ اسے فوری طور پر  اپنے معاشی انفراسٹرکچر میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔  اسے اپنی برآمدات بڑھانا ہوں گی اور بیرونی قرضوں پر سے انحصار کم سے کم کرنا ہوگا۔ لیکن پاکستان کی طرح اس کے آگے بھی سوال وہی ہے۔ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟

متعلقہ عنوانات