سوئے ارمانوں کو جگایا کس کی حسن آرائی نے

سوئے ارمانوں کو جگایا کس کی حسن آرائی نے
کس کے پرتو سے روشن ہیں دل کے دھندلے آئینے


محفل محفل کیوں نہ تمہارے تیر نظر کا چرچا ہو
کتنی دعائیں دیں ہیں دل کے زخموں کی گہرائی نے


میں جس جانب بھی مڑتا ہوں ان کو سامنے پاتا ہوں
سارے پردے توڑ دئے ہیں اس دل کی بینائی نے


دل کے صحرا سے پھر گزرا قافلہ ان کی یادوں کا
کیسے کیسے جشن منائے آج مری تنہائی نے


نادانی میں ڈوب مرے جو ان کا رنج بھلا کس کو
لیکن جن کو قتل کیا ہے خود اپنی دانائی نے


کچھ تو نعیمؔ اس گلشن کی اب اہل زباں بھی فکر کریں
جس کو سنوارا میرؔ و انیسؔ و غالبؔ اور مینائیؔ نے