زخم دیتی رہی ہے ذات نئے
زخم دیتی رہی ہے ذات نئے گل کھلاتی رہی حیات نئے دن روایات کا اسیر رہا خواب دیکھے ہر ایک رات نئے رہنما کس کو چن لیا تم نے پیش آئیں گے واقعات نئے دوستی رسم یا رواج نہیں آئے دن کیوں تکلفات نئے آپ کھو بیٹھے اعتبار اپنا کیا کروں میں یہ کاغذات نئے آج ہم فیصلوں کو کیوں ٹالیں کل نیا ...