سوچوں کے بن باس میں آخر کچھ تو سوجھ ہی جائے گا
سوچوں کے بن باس میں آخر کچھ تو سوجھ ہی جائے گا
یہ رستوں کا پیچ و خم خود منزل بھی دکھلائے گا
ممکن ہے کہ تجھ کو اب تک خاک نظر نہ آتا ہو
وقت بلا کا شاطر ہے وہ چالیں چلتا جائے گا
آنکھیں رو رو چمکا لی ہیں اجلے منظر تکنے کو
سورج پر جو گرد پڑی ہے اس کو کون ہٹائے گا
سارے اچھے موسم اس کی خواہش میں ہی بیت گئے
کیا وہ اب ان زرد رتوں میں مجھ سے ملنے آئے گا
سوکھے پتے اوڑھ کے اپنے تن پہ آنکھیں بند کیے
سوچ رہا ہوں کوئی آ کر دیپک راگ سنائے گا
تیری میری عقل کے ناطے آج بھی ہیں سجادؔ جدا
جو میں بات سمجھ نہیں پایا تو کیسے بتلائے گا