شعور دے کے مجھے بال و پر نہیں دیتا

شعور دے کے مجھے بال و پر نہیں دیتا
سفر کا کہتا ہے زاد سفر نہیں دیتا


یہ کون مجھ کو مری ذات سے چھپاتا ہے
یہ کون مجھ کو ہی میری خبر نہیں دیتا


نشان منزل مقصود تو بتاتا ہے
کسی بھی طور وہ اذن سفر نہیں دیتا


زمانہ گو مجھے مائل بہ جنگ کرتا ہے
مگر یہ تیغ و سنان و سپر نہیں دیتا


ستم تو جو بھی کرے تجھ کو ہے روا لیکن
مرا ضمیر مجھے یہ ہنر نہیں دیتا


مبادا لوٹ کے آؤں کوئی نہ پہچانے
نکلنے گھر سے یہ سجادؔ ڈر نہیں دیتا