دل مضطر میں جلتی ایک حسرت اور رکھنی ہے
دل مضطر میں جلتی ایک حسرت اور رکھنی ہے
مجھے طاق جنوں میں اک محبت اور رکھنی ہے
گریباں چاک ہے گرچہ مجھے کچھ اور کرنا ہے
کہ اب ان وحشتوں میں ایک وحشت اور رکھنی ہے
خطیب وقت نے سکھلا دیا یہ اہل دنیا کو
خطابت اور رکھنی ہے عداوت اور رکھنی ہے
کوئی بھی واردات قلب و جاں ظاہر نہیں کرنی
مجھے اب انتقاماً اپنی حالت اور رکھنی ہے
طواف شہر جاناں سے اگر سجادؔ فرصت ہو
تھکے پیروں کے نیچے اک مسافت اور رکھنی ہے