رفتہ رفتہ دل میں اک الجھن نئی پاتے ہیں ہم
رفتہ رفتہ دل میں اک الجھن نئی پاتے ہیں ہم
ہم یہ سمجھے تھے کہ ان کو بھولتے جاتے ہیں ہم
اس کو کیا کیجے کہ یہ بھی کھیل ہے تقدیر کا
ڈھونڈھتے ہیں جب انہیں اپنا پتہ پاتے ہیں ہم
چند آہوں پر ہماری ہے پریشانی انہیں
سیکڑوں صدمے ہیں جو خاموش پی جاتے ہیں ہم
ایسی دنیا سے شکایت کیا گلہ کیا رنج کیا
پھول برساتی ہے دنیا آگ برساتے ہیں ہم
بے طلب حسن عطا کی شان ہی کچھ اور ہے
آپ کہتے ہیں تو لیجے ہاتھ پھیلاتے ہیں ہم
اپنی روداد الم کی اب وہ منزل آ گئی
کوئی سنتا ہو نہ سنتا ہو کہے جاتے ہیں ہم
لیجئے ترک تعلق کا تہیہ کر لیا
دیکھنا یہ ہے اسے کب تک نبھا پاتے ہیں ہم
اے وفور زندگی تلخابۂ ہستی نہ پوچھ
ذہن کی خوش فہمیوں سے دل کو بہلاتے ہیں ہم
رنجش بے جا نے ان کی کر دیا عالم ہی اور
زندگی کے نام کی گویا سزا پاتے ہیں ہم
دوست نا خوش اقربا ناراض برہم گھر کے لوگ
سچ کا دامن تھام کر اچھا صلہ پاتے ہیں ہم
کچھ عجب فطرت ہے قادرؔ درد دل کی آج کل
جب کوئی دیتا ہے تسکیں اور گھبراتے ہیں ہم