گیا وہ دور تو خوابوں کے سلسلے بھی گئے
گیا وہ دور تو خوابوں کے سلسلے بھی گئے
دل و نگاہ کے پر کیف حوصلے بھی گئے
وہی گئے تو پھر اب شکوہ و شکایت کیا
شکایتیں گئیں شکوے گئے گلے بھی گئے
بکھر کے رہ گئی تصویر آرزوؤں کی
امید و آس و تمنا کے قافلے بھی گئے
یہی نہیں کہ بہت سی لطافتیں روٹھیں
ادا و ناز کے رنگین مرحلے بھی گئے
بجھے بجھے سے ہیں آشاؤں کے کنول قادر
خروش زیست گیا دل کے ولولے بھی گئے