سو اب تعبیر کی دھن ہے کہ دیکھے جا چکے ہیں

سو اب تعبیر کی دھن ہے کہ دیکھے جا چکے ہیں
وگرنہ خواب نا ممکن سے آگے جا چکے ہیں


ہمارے ذمے ہے آئندگاں کی موت کا دکھ
اور ان کا غم جو ہم لوگوں سے پہلے جا چکے ہیں


بہت سے لوگ اب بد ظن ہیں گاؤں کے خدا سے
بہت سے لوگ شہروں میں کمانے جا چکے ہیں


ہم آئندہ زمانوں کی غزل ترتیب دیں گے
تمہاری بے رخی پر شعر لکھے جا چکے ہیں


مرے بھائی میں کہتا تھا کہ آوازوں سے مت ڈر
تو جن کے ڈر سے چپ بیٹھا تھا سن لے جا چکے ہیں