خون میں دوڑتی ننھی مشینیں کیا ہیں؟

میڈیکل کے میدان میں ٹیکنالوجی کے استعمال نے علاج کو آسان اور تیز رفتار کردیا ہے۔ ہم پانچویں صنعتی انقلاب کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔۔۔سائنس زندگی کے دوسروں شعبوں کی طرح طب(میڈیکل) کے میدان میں بھی انقلابی قدم اٹھارہی ہے۔ جن چیزوں کاہم چند سال پہلے تصور بھی نہیں کرسکتے تھے اب وہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے آچکی ہیں۔آج اس خصوصی تحریر میں میڈیکل شعبے میں ٹیکنالوجی سے  وجود میں آنے والی ایک حیرت انگیز دنیا سے متعارف کروائیں گے۔۔۔سمارٹ پِل (ذہین گولی)یعنی خون میں موجود ایسی ننھی مشینیں جن کو آپ اپنے موبائل فون سے نہ صرف نیویگیٹ کرسکتے ہیں بلکہ اس کے اثرات کو بھی لائیو دیکھ سکتے ہیں۔آئیے اس حیرت انگیز دنیا کی سیر کو چلتے ہیں:

نینو ٹیکنالوجی کی حیرت ناک دنیا

نینو ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے مشینوں کو مختصر کرنے کا عمل بہت تیز ہوتا جا رہا ہے۔ آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل فون بھی دراصل اسی ٹیکنالوجی کا مرہون منت ہے۔ اور اب اسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے میڈیسن کی دنیا میں انقلاب برپا کر دینے والی مشینوں کی آمد آمد ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ خواب آج سے پچاس سال پہلے ایک فلم ساز (ڈائریکٹر) نے دیکھا تھا۔۔۔اچھا وہ کیسے۔۔۔!

خون میں سفر کرنے والےخوطہ خور: پچاس برس قبل کی سائنس فکشن فلم کا قصہ

"Fantastic Voyage" نامی سائنس فکشن مووی،  جو 1966 میں ریلیز ہوئی، میں کچھ سائنسدان خون کے سرخ خلیوں کی حد تک مختصر ہو جاتے ہیں اور پھر وہ خون کی روانی میں شامل ہو کر مریض کے دماغ تک پہنچ جاتے ہیں اور جسم کے اندر موجود خطرات کا تدارک کرتے ہیں۔ پچاس برس قبل جس تصور کو صرف سوچا گیا تھا اب وہ حقیقت بن چکا ہے یعنی اب خون میں ننھی مشین جیسے مائکرو راکٹ بھی کہہ سکتے ہیں، سفر کریں گے۔

اب ایسی ننھی مشینیں بننے جا رہی ہیں  جوہمارے  خون کے بہاؤمیں شامل ہو سکیں گی۔نینو ٹیکنالوجی کا ایک اہم مقصد ایسے مالیکیولر شکاری تیار کرنا ہے جو کینسر کے خلیات تک پہنچ کر انھیں ختم کر سکیں۔ تاہم ناقدین نے ہمیشہ اس تصور کو ناممکن قرار دیا کہ ایسے ننھے آلات بنا لیے جائیں کہ جو خون میں شامل ہو کر متاثرہ خلیات کو خود ہی تلاش بھی کریں اور ان کا خاتمہ بھی کر سکیں۔

ذہین گولی (سمارٹ پِل): خون میں سفر کرنے والا راکٹ

                جو خواب "Fantastic Voyage"  میں دیکھا گیا، اس  کی اولین تعبیر 1992 میں پیش کی گئی جب یونیورسٹی آف بوفیلو  کے جیروم چینٹنگ نے ایک ذہین گولی (smart pill) تیار کی۔ یہ دراصل گولی کی شکل کی ڈیوائس تھی جسے نگلا جا سکتا تھا۔ اسے باہر سے ٹریک بھی کیا جا سکتا تھا۔ پھر اسے کسی مخصوص مقام پر دوا خارج کر نے کی ہدایات بھی دی جا سکتی تھیں۔ ایسی سمارٹ پلز بھی تیار کی گئیں جو ٹی وی کیمرے پر مشتمل تھیں تاکہ جسم کے اندر معدے اور انتڑیوں کی تصویر کشی بھی کی جا سکے۔ اس طرح جسم کے اندر ٹیومرز کو تلاش کر سکتی تھیں۔ مستقبل میں ایسی سمارٹ پلز کے ذریعے ہلکی پھلکی سرجری بھی کی جا سکے گی اور جلد کی چیر پھاڑ کئے بغیر ہی، اندرونی سرجری  کو ممکن بنایا جا سکے گا۔

چند ماہ قبل ایک امریکی ادارے نے  سمارٹ پِل کی مارکیٹ میں طلب اور رسائی پر ایک رپورٹ شائع کی۔ اس وقت سمارٹ میڈیسن کی مارکیٹ ویلیو ایک ہزار ملین ڈالر کے قریب ہے جبکہ  2027 تک اس کی مارکیٹ 1700 ملین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

یہ ذہین گولی یا ایسے  ذہین نینو پارٹیکلز کیسے کام کرتے ہیں۔۔۔آئیے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

نینو پارٹیکلزکیسے کام کرتے ہیں؟

                اس سے بھی چھوٹی ڈیوائس نینو پارٹیکل ہے، یعنی ایک ایسا مالیکیول جو کسی مخصوص ٹارگٹ پر کینسر کے خلاف لڑنے والی دوا پہنچا سکے۔ یہ ڈیوائس کینسر کے علاج میں انقلاب برپا کر دے گی۔ اس نینو پارٹیکل کو مالیکیولر سمارٹ بموں یا راکٹ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو کسی مخصوص مقام پر کیمیائی مواد پھینک سکیں ۔ اس طریقے میں دیگر صحت مند خلیوں کو نقصان پہنچنے کا امکان بہت کم ہے۔

Description: C:\Users\KAMRAN\AppData\Local\Microsoft\Windows\INetCache\Content.Word\pill-1-1.jpg

                جس شخص نے بھی کیمو تھراپی کے خطرناک مضر اثرات کا سامنا کیا  ہے، وہ ان نینو پارٹیکلز کی اہمیت کو بہتر سمجھ سکتا ہے۔ کیمو تھراپی میں پورے جسم کو خطرناک زہریلے مرکبات (toxins) سے دھویا جاتا ہے جو کینسر کے خلیات کے ساتھ ساتھ عام خلیات کو بھی خاصا نقصان پہنچاتے ہیں۔نیز اس کی وجہ سے بالوں کا گرنا، گھن آنا، جسمانی کمزوری اور جلد کے انفیکشن سمیت کئی سائیڈ ایفیکٹس کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی مریض کینسر کی بجائے، کیمو تھراپی کی اذیت سے ہی مر جاتے ہیں۔

                نینو پاٹیکلز کی بدولت یہ سب کچھ تبدیل ہو کر رہ جائے گا۔ اس میں کیمو تھراپی کی ادویات کیپسول نما مالیکیولز میں رکھی جائیں گی۔ پھر انھیں خون کے بہائو میں شامل کیا جائے گا۔ یہ پارٹیکلز جب اپنی منزل پر پہنچیں گے تو وہاں دوا کو خارج کر دیں گے۔ اس نینو پارٹیکلز کی اصل خوبی ان کی جسامت ہے۔ یہ محض 10 سے 100 نینو میٹر کی جسمات کے حامل ہوں گے اور خون کے خلیے کے اندر داخل نہیں ہو سکیں گے۔ اس طرح یہ خون کے عام خلیات کے ساتھ بے ضرور انداز سے ٹکراتے پھریں گے۔ چونکہ کینسر کے خلیات ذرا مختلف ہوتے ہیں اور ان کی دیواریں بڑے اور بھدے مساموں کے ساتھ چھیدی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس طرح یہ نینو پارٹیکلز کینسر کے ان خلیات کے اندر بآسانی داخل ہو سکیں گے اور وہاں مطلوبہ دوا پہنچا سکیں گے۔ ڈاکٹر حضرات کو ان کینسر زدہ خلیات تک مطلوبہ دوا پہنچانے کے لئے کسی پیچیدہ مددگار نظام کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

                ان نینو پارٹیکلز کی اور خوبی یہ ہو گی کہ ان کی وجہ سے کسی قسم کے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) پیدا نہیں ہو ں گے۔ یہ اس قدر درست جسامت کے مالک ہو ں گے کہ نارمل خلیات پر بالکل حملہ نہیں کرسکیں گے ، لیکن کینسر زدہ خلیات میں بآسانی داخل ہو سکیں گے۔ 

نیز ان کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان کی تیاری کے لئے کسی پیچیدہ فیکٹری اور کیمیکل پلانٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ مختلف کیمیکلز کو ایک مناب تناسب کےساتھ آپس میں مکس کیا جاتا ہے اور نینو پارٹیکلز تیار ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ انھیں تیار کرنے کے لئے کسی خاص پیچیدگی کی ضرورت نہیں ہے اس لیے انھیں کلو گرام کے حساب سے آسانی سے تیار کیا جا سکتا ہے۔ ان پارٹیکلز کو چوہوں میں پراسٹیٹ، چھاتی اور پھیپھڑوں کے کینسر کے لئے استعمال کرنے کی اجازت مل چکی ہے۔  تاہم ان کی انسانی آزمائشوں کے لئے ابھی کچھ عرصہ درکار ہے۔

مقناطیسی نینو پلیٹیں جوکینسر زدہ خلیات کو ختم کر سکیں

                نینو پارٹیکلز کے ذریعے کینسر کے خلیات کو تلاش کرنے اور ان تک دوا پہنچانے کے ساتھ ساتھ انھیں اس قابل بھی بنایا جا سکتا ہے کہ وہ خود ہی کینسر خلیات کو ختم بھی کر سکیں۔ اس کے لئے ماہرین ای ننھی مقناطیسی  پلیٹیں (magnetic disks) بنا رہے ہیں جو بہت تیزی سے تھرتھرا سکیں۔ جب ان پلیٹوں کر کینسر کے خلیات تک پہنچا لیا جائے تو (جسم کے باہر سے )ان پر ایک مقناطیسی میدان گزارا جاتا ہے جو انھیں تھرتھرانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس طرح کینسر کے خلیات کی دیواروں کو چیر پھاڑ کر انھیں ختم کیا جا سکتا ہے۔ ابتدائی تجربات بتاتے ہیں کہ محض 10 منٹ کی تھرتھراہٹ نے 90% کینسر زدہ خلیات کو تباہ کر دیا۔ اسی طرح کچھ ایسے دھاتی نینو پارٹیکلز بھی بنائے جا رہے ہیں جو کسی مخصوص فریکوئنسی پر گرم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ رسولی کے خلیات کو گرم کر کے انھیں ختم کر سکتے ہیں۔یہ دھاتی نینو پارٹیکلز جتنی زیادہ حرارت پیدا کریں گے، کینسر کے خلیے اتنی ہی تیزی سے ختم ہوں گے۔

                پس ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کئے گئے مختلف پارٹیکلز اس قابل ہوں گے کہ وہ رسولی بننے سے پہلے ہی ،کینسر زدہ خلیات کی شناخت کر سکیں، ان تک مطلوبہ دوا پہنچا سکیں اور انھیں  ختم کر سکیں ۔  

نینو میڈیسن کا سفر جانیے اس ویڈیو میں:

 

متعلقہ عنوانات