سیاہ شب کی بلاؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے
سیاہ شب کی بلاؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے
مرے چراغ ہواؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے
وہ لے کے کترنیں گڑیا بنانے لگ گئی تھی
کہ شہر زادی کو گاؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے
ہماری موت یقینی بتائی جا رہی تھی
ہمارے خط بھی خداؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے
ہمارے جسم کہ گھوڑوں کی ٹاپوں میں پڑے تھے
ہمارے سر کہ سناؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے
زمین زادے زمیں سے لڑائی کرنے لگے
کہ ان کے ذہن خلاؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے
ہماری آنکھیں نظاروں میں قید ہو گئیں تھیں
ہمارے کان صداؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے
ہماری رنگتیں ہر آن پیلی پڑ رہیں تھیں
ہماری دھوپ کو چھاؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے
ہماری شاخوں پہ بس خار بچ گئے تھے سفیرؔ
ہمارے پھول خزاؤں کے ہاتھ لگ گئے تھے