سیاہ خانہ کبھی جلوہ گر سا لگتا ہے

سیاہ خانہ کبھی جلوہ گر سا لگتا ہے
کہو کہاں سے یہ ویرانہ گھر سا لگتا ہے


رکے ہوئے ہیں اسی ''پھر ملیں گے'' پر اب تک
کہا زبان کا اس کی نظر سا لگتا ہے


چھپی ہے کب کوئی بھی بات تم سے پر پھر بھی
وہ بات کیا ہے کہ کہنے میں ڈر سا لگتا ہے


یہ آئنے میں مجھے دیکھتا ہے کون بھلا
اک عرصے سے جو ادھر سے ادھر سا لگتا ہے


جو جانتا ہے کہ وہ جانتا نہیں کچھ بھی
وہ بے خبر ہی مجھے باخبر سا لگتا ہے


ہے خواب زار شکن در شکن شکنجہ بر
پہ اس میں نقش ترا معتبر سا لگتا ہے


وہ اور فسانۂ کون و مکاں وسیع لگے
میں اور قصہ یہ کچھ مختصر سا لگتا ہے


مقام مرگ کہاں کوئی آخری منزل
سرے سے راہ فنا کے سفر سا لگتا ہے


کسی طرح اسے انجام تک نہیں لاتا
تماشا ساز ذرا بے ہنر سا لگتا ہے