کل چل دیے تم بس پوچھ کے اور
کل چل دیے تم بس پوچھ کے اور
اور پوچھتے کچھ کچھ پوچھتے اور
میں سامنے تھا تم سامنے تھیں
ممکن نہیں ہیں اب فاصلے اور
تکیہ تصور کا خبط ہے خوب
جو وقت بے وقت تجھ کو چھوئے اور
گفتار مبہم سے تنگ ہو کر
فرمائے وہ چشم فرمائیے اور
اک موڑ تھا خاص اپنے سفر کا
اک موڑ تھا اور پھر راستے اور
میں بدلا پر کچھ نہ بدلا دراصل
وہ کوئی اور ہی تھا اور یہ اور
ہم تو سرے ڈھونڈیں آگے پیچھے
اور خلق پھیلائے دائرے اور
امکاں مرا خاک ملاتا ہے سب کو
میں صفر سے کم ہوں ایک سے اور
ناکام ہے لفظ معانی ہے جھوٹا
میں بات رکھتا ہوں بن کہے اور