جیسے عکس فلک حباب میں ہو
جیسے عکس فلک حباب میں ہو
ایک قطرہ کہیں سراب میں ہو
اشک ساکت میں کیا جگا غم عشق
چاند آغوش خواب آب میں ہو
نہ ہنسے اپنی بے بسی پر بھی
کیا پتا کون کس عذاب میں ہو
آئی ہے پھر کسی کے حق میں سزا
جرم کس کے مگر ثواب میں ہو
دل خزاں گاہ دو جہاں ہی سہی
رنگ خوں ایسا کس گلاب میں ہو
جو میں ذرے سے اس جہاں کی ہوں فکر
کیا عجب جو یہ اضطراب میں ہو
حرف آخر لگے ہے قول مرا
اک سوال نہاں جواب میں ہو
ان دو مصرعوں میں ہے مری آواز
پھول جیسے کوئی کتاب میں ہو