کہاں سے گئی بات میری کہاں کو

کہاں سے گئی بات میری کہاں کو
یوں کہیے زباں دے رہا ہوں زباں کو


چلا ہوں کی پھر کچھ نیا مان پاؤں
حصار یقیں ڈھ کے دشت گماں کو


وجود استعارہ ہے نظم جہاں میں
ہے مطلوب عدم شاعر لا مکاں کو


ہے سایہ گرفتار پنجۂ خورشید
سلاسل ہیں ہم تو خودی عیاں کو


ہوا ازل کی گرہ کھلنے کو تھی
اڑی ناخن شمع ہستی کہاں کو


اٹھا دست آتش زدہ سا زمیں سے
دھواں شہر دہلی کا پھر آسماں کو


فقط میرا عکس تصور ہے یہ شعر
کبھی دیکھ اس آئینۂ بے نشاں کو


دل غفلت و آگہی ہوں سو چپ ہوں
نہ پوچھ اس غم صبر و ضبط امتحاں کو


صدف گرد خواب محیط رواں خواب
گہر خواب خوابیدہ چشم نہاں کو