ستم میں تاب کم ہو تو پشیمانی میں رہتی ہیں

ستم میں تاب کم ہو تو پشیمانی میں رہتی ہیں
مرے غم سے مری خوشیاں پریشانی میں رہتی ہیں


تمہاری شکل ان آنکھوں میں آ جاتی ہے دن ڈھلتے
یہ دونوں سیپیاں پھر رات بھر پانی میں رہتی ہیں


جو درد‌ زخم بڑھتا ہے تو لطف اندوز ہوتا ہوں
مری سب راحتیں اس کی نمک دانی میں رہتی ہیں


مرے اندر کے غم باہر بھی ظاہر ہوتے رہتے ہیں
یہ دل کی سلوٹیں ہیں جو کہ پیشانی میں رہتی ہیں


ازل سے ہے ہماری آنکھوں میں پیوست آئینہ
سو ان میں جھانکنے والی بھی حیرانی میں رہتی ہیں


تمہیں میں چوم لوں چھو لوں ذرا اک شرم ہے ورنہ
یہ ساری جستجوئیں حد امکانی میں رہتی ہیں