صرف زندہ ہی نہیں ہوش سنبھالے ہوئے ہیں

صرف زندہ ہی نہیں ہوش سنبھالے ہوئے ہیں
آپ کو دشت میں یعنی ابھی ہفتے ہوئے ہیں


کون چاہے گا درخت اس کے ثمر بار نہ ہوں
تو بنے اس لیے ہم خود کو مٹائے ہوئے ہیں


یہ جو بچے ہیں فقط جھولا نہیں جھول رہے
شاخ پے پھول کی مانند یہ لٹکے ہوئے ہیں


ان درختوں کے فوائد کا تمہیں علم نہیں
ان کو مت کاٹو یہ بابا کے لگائے ہوئے ہیں


میں بہت خوش تھا مجھے اس نے بلایا ہے عظیمؔ
پر یہاں جتنے ہیں سب اس کے بلائے ہوئے ہیں