دشمنوں کی کبھی فہرست بڑھاتا نہیں میں
دشمنوں کی کبھی فہرست بڑھاتا نہیں میں
عشق کس سے ہے کسی کو بھی بتاتا نہیں میں
اس نے اس طرح پکارا کہ پلٹنا ہی پڑا
ورنہ اک بار چلا جاؤں تو آتا نہیں میں
تیری قسمت کہ تو اس دل میں رہا کرتا ہے
یہ وہ مسند ہے جہاں سب کو بٹھاتا نہیں میں
میرے صیاد مجھے اب تو رہا مت کرنا
تیرے دانے کے سوا کچھ بھی تو کھاتا نہیں میں
جو بھی ہوتا ہے وہ اچھے کے لئے ہوتا ہے
اس لیے زخم پہ مرہم بھی لگاتا نہیں میں
اپنی مرضی سے چلاتا ہوں گھڑی کو اپنی
وقت اپنا کبھی اوروں سے ملاتا نہیں میں
اتنا سادہ ہے کہ خط بھی نہیں لکھنا آتا
اس کے خط گھر میں کسی سے بھی چھپاتا نہیں میں
مجھ کو شاعر کبھی تسلیم کرے گی دنیا
شعر کہتا ہوں مگر پیتا پلاتا نہیں میں