کوئی نہ ڈوبے میں یوں سہارے بنا رہا ہوں

کوئی نہ ڈوبے میں یوں سہارے بنا رہا ہوں
جہاں بھنور ہے وہیں کنارے بنا رہا ہوں


یہ غزلیں سن کے تو اپنے اوپر غرور مت کر
میں واہ واہ ہی کو استعارے بنا رہا ہوں


یہ میں ہی کہتا تھا پھول مت توڑ پر یہ گجرے
میں اس کے غصے کے ڈر کے مارے بنا رہا ہوں


سوا ہمارے کوئی نہ سمجھے ہماری باتیں
یوں گفتگو کے نئے اشارے بنا رہا ہوں


جو تم نے تصویر بھیجی میری ادھوری سی تھی
سو اس کے چاروں طرف شرارے بنا رہا ہوں


مجھے بڑھانا ہے چاند تاروں کے مرتبے کو
سو اس کے ماتھے پہ چاند تارے بنا رہا ہوں