سلسلہ سانسوں کا یوں بے ضابطہ ہو جائے گا
سلسلہ سانسوں کا یوں بے ضابطہ ہو جائے گا
رات دن پینا ہی جہد لا بقا ہو جائے گا
جز و لا ینفک رہے گر زیست کے کرب و الم
میرا اپنا آپ کچھ ہو عین لا ہو جائے گا
گر یوں ہی ایذا کش حالات رہنا ہی پڑا
کچھ کا کچھ سب اور جانے کیا سے کیا ہو جائے گا
بعد تیرے پیٹھ سورج کی طرف کرنی پڑی
ہو نہ ہو اب مجھ سے سایہ بھی جدا ہو جائے گا
دن بہ دن گرتے رہے اقدار تو انجام کار
کل کو جو کچھ ناروا تھا سب روا ہو جائے گا
قافلے یادوں کے یوں آتے رہے تو ایک دن
قطرہ قطرہ آنسوؤں کا بے حیا ہو جائے گا
صرف اک جست جنوں تک ہے یہ دشت این و آں
بعد اس کے جو بھی کھوٹا ہے کھرا ہو جائے گا
ڈوب جاؤں گا کسی ساغر میں اک دن میرا کیا
جس کا جو کچھ بھی ہے مجھ پر وہ ادا ہو جائے گا