اس دور میں جینے کا سبب کس سے کہیں کیا
اس دور میں جینے کا سبب کس سے کہیں کیا
یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کب کس سے کہیں کیا
ترغیب خود ایزائی تو ان ہونٹوں نے دی تھی
کیوں پھونک دی دنیائے طرب کس سے کہیں کیا
ہر کوئی تو اپنے کو یہاں بیچ رہا ہے
پھیلائیں کہاں دست طلب کس سے کہیں کیا
دن شکلوں کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے لیکن
میرے لئے کیا لاتی ہے شب کس سے کہیں کیا
بس کرب کی چادر مرے تن سے نہ ہٹانا
باقی نہیں کچھ کہنے کو اب کس سے کہیں کیا
اس بزم علائق میں نہ سامع ہے نہ باصر
ہر سمت ہے اک شور و شغب کس سے کہیں کیا
بیکار تقاضائے وفا کرنا ہے حمدونؔ
اب ہو بھی چکے جان بہ لب کس سے کہیں کیا