میں ہوں اور مشغلہ جامہ دری ہے یاہو

میں ہوں اور مشغلہ جامہ دری ہے یاہو
کیف در کیف عجب بے خبری ہے یاہو


ہر طرف سحر نفی خوف ابد طاری ہے
جان لیوا یہ بلیغ النظری ہے یاہو


ہست در ہست حجابات کے صحرا ٹھہرے
کیا یہ تشریح مقام بشری ہے یاہو


پوری قوت سے نہ کیوں دوڑوں ابد کی جانب
زیست اک عالم افراتفری ہے یاہو


اک سنورتا ہوا لمحہ تو کہیں مل جاتا
دیکھ چہرے پہ مرے در بہ دری ہے یاہو


این و آں جب میرے پرکار کی گردش کے اسیر
پھر یہ کیوں کس لئے دریوزہ گری ہے یاہو


میرے افکار ہیں ابلاغ گزیدہ تو کیا
ایک نئے طور کی یہ دیدہ وری ہے یاہو