ہزار قصے سناتا رہا گلاس کا رنگ
ہزار قصے سناتا رہا گلاس کا رنگ
مٹا سکا نہ مگر میرے لب سے پیاس کا رنگ
در یقیں پہ مسلسل گماں کی دستک ہے
ابھر نہ جائے کہیں ایک دن قیاس کا رنگ
اثر کو چاہئے کچھ اور عاجزی شاید
مری دعاؤں میں شامل ہے التماس کا رنگ
چمن میں زرد رتوں کے نقوش روشن ہیں
چمک رہا ہے مگر کیاریوں میں گھاس کا رنگ
جواز کچھ بھی نہیں اب پئے شمار نفس
کوئی امید کی خوشبو نہ کوئی یاس کا رنگ