سینۂ خاک پہ بکھرا ہے لہو گاؤں میں

سینۂ خاک پہ بکھرا ہے لہو گاؤں میں
ایسا لگتا ہے کہ لوٹ آیا ہے تو گاؤں میں


گفتگو ہوگی تری خود سے کسی کے لب پر
تو کسی روز کسی پھول کو چھو گاؤں میں


کچی مسجد ہے جہاں پڑھتے ہیں سب لوگ نماز
اور اک نہر سے کرتے ہیں وضو گاؤں میں


مل کے بیٹھیں گے خوشی اور غمی میں سارے
جاری رکھیں گے محبت کی یہ خو گاؤں میں


نہ پرندے ہیں نہ اب کھیلتے بچے تاثیرؔ
اب تو چھایا ہے فقط عالم ہو گاؤں میں