شور سارا مرا سمو لے گی

شور سارا مرا سمو لے گی
خامشی ایک روز بولے گی


اک اداسی بھی جاں کی دشمن ہے
بال وحشت بھی اپنے کھولے گی


وصل کی یاد کے سہارے ہی
ہجر میرا اکیلے رو لے گی


تیرے دل نے مجھے پکارا ہے
کیا تو اس سے بھی جھوٹ بولے گی


میری قسمت میں نیند ہے ہی نہیں
تیرا کیا ہے تو دن میں سو لے گی


میں دوبارہ تجھے ملوں گا نہیں
لاکھ تو دل اگر ٹٹولے گی